(ریحان اختر)
جمہوریت کا چوتھا ستون کہے جانے والے میڈیا کی طاقت اور سماجی و سیاسی تبدیلی پر اس کے اثرات سے ہر کوئی واقف ہے۔ملکی سطح پر میڈیا کی خراب ہوتی شبیہ اور ایک مخصوص طبقہ و جماعت کی کھلی پشت پناہی جگ ظاہر ہے۔میڈیا ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت مسلمانوں کی جان ومال، تہذہبی ثقافتی و مذہبی اقدار پر مسلسل شب خون مار رہا ہے۔مسلمانوں کی آہ و فغاں سننے والا کوئی نہیں ہے۔ملکی سطح پر میڈیا کی اس ظالمانہ روش پر تنقید و مذمت قوم کا مشغلہ بن گیا ہے۔کیامیڈیا اور اس کے پس پردہ بھگوا محاذ کے زہریلے ایجنڈے کے خلاف رونا دھونا اور سوتیلے سلوک کی دہائی دینا ہی اب ہمارا کام رہ گیا ہے؟ ذرا موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں تو اس بات کا علم ہوگا کہ آج ہمیں کن محاذوں پر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔کچھ عرصہ قبل چند ایسی تحریریں مطالعہ میں آئیں جن میں واضح طور پر اس بات کو اجاگر کیا گیا کہ مسلمانوں کو تعلیمی،معاشی،عدالتی اور ذرائع ابلاغ(میڈیا) کے میدان میں اپنی ساکھ بحال کرنے کیلئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دینا چاہیے۔لیکن اس ضمن میں کوئی مثبت یا حوصلہ بخش کام ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔اگر میڈیا کے بارے میں بات کریں تو ملکی سطح پر کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں ہے۔باوجود اس کے کہ قوم میں مال و اسباب اور صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے۔مالیگاؤں میں گزشتہ کچھ عرصہ میں اس میدان میں نمایاں تبدیلی دیکھی گئی۔
عوام میں سیاسی و سماجی شعور بھی پیدا ہوا ہے جو خوش آئند ہے لیکن امت قومیت کے جذبے سے عاری ہے۔آج قوم کا بنیادی ڈانچہ(basic structure)متزلزل ہوچکا ہے۔ہمارے نوجوانوں اور بچوں میں الحمداللہ صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں ہے اس کے باوجود تعلیمی میدان میں رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرنے کیلئے کسی منظم پلیٹ فارم کا فقدان ہے۔شہر میں متعدد اخبارات،اردو انگریزی نیوز پورٹل کے ذریعے عوام تک خبریں پہنچانے کا کام کررہے ہیں۔لیکن کیا مقامی سطح پر میڈیا اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر رہی ہے۔جو لوگ اصولی طور پر صحافت کررہے ہیں کیا وہ عوامی مسائل کو منظر عام پر لانے اور اس کے سد باب کیلئے سنجیدگی سے کام کررہے ہیں؟یہ باتیں اکثر و بیشتر کہی جاتی ہیں کہ سیاست و سماج پر میڈیا کا گہرا اثر ہوتا ہے،تو پھر ہمارے شہر پر کس حد تک میڈیا اثر انداز ہورہا ہے۔شہر کی سڑکوں، گٹروں،گندگی اور بنیادی سہولیات سے متعلق دیگر مسائل سوشل میڈیا کے ذریعے اکثر وبیشتر منظر عام پر آتے ہیں۔حالانکہ کچھ یوٹیوب چینل اس ضمن میں اپنی بساط بھر کوشش کررہے ہیں لیکن اکثر چینلس کی رپورٹ میں جانبداری جھلکتی ہے۔حال ہی میں شہر کے ایک نامور چینل کی مذمت سے متعلق تحریریں منظر عام پر آئیں۔خیر ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کی اپنی کئی مجبوریاں بھی ہیں۔لیکن عوام کی بے حسی اور مجرمانہ خموشی پر افسوس ہے۔شخصیت پسندی کا خمار سر چڑھ کر بول رہا ہے۔سوشل میڈیا پر سیاسی آقاؤں کا دفاع کرتے کرتے اپنے حق اور اپنی نسلوں کے مستقبل کو فراموش کر بیٹھے۔وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ شخصیت پرستی کو چھوڑ کر شہری مفاد کو ترجیح دی جائے۔انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی حمایت میں ریلی،جلسے و جلوس نکالنے اور محلوں میں میں کلبیں بنا کر امیدوار کو فتح کا تقین دینے والے اور ان کی کامیابی کیلئے دن رات محنت کرنے والے، گلی محلے کے رائے دہدگان کی ووٹوں کا سودا کر کے اپنی جیب بھرنے والے افراد زرا اپنے محلے کا دورہ کریں اور عوام کی تکالیف کا جائزہ لیں۔جس طرح الیکشن کے ایام میں نمائندوں (Corporator) کے ساتھ گھر گھر جاکر ووٹ مانگا تھا اسی طرح گھر گھر جاکر شہر کی عوام کی تکالیف کا جائزہ لیں۔جس طرح ذمہ داری لے کر کارپوریٹر یا رکن اسمبلی کو انتخاب میں کامیابی دلائی تھی اسی طرح ذمہ داری کا ثبوت دیں اور عوامی نمائندوں سے کام کروانے کی کوشس کریں تو شہر کے حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔عوام کو اپنے حق کیلئے آواز اٹھانی ہوگی اور انتخابی موسم میں شخصیت اور پارٹی کے متبادل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کام کی بنیاد پر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنا ہوگا۔بلاشبہ شہر کے موجودہ حالات کی ذمہ داری جتنی عوامی نمائندوں پر عائد ہوتی ہے اتنی ہی عوام پر بھی عائد ہوتی ہے۔عوام جب تک بیدار نہیں ہوگی جب تک اپنے حق کیلئے خود آواز نہیں اٹھائے گی حالات کی تبدیلی کا خیال عبث ہے۔
Post A Comment:
0 comments: