نظامِ تعلیم ،قوم کا مستقبل اور ہماری ذمہ داریاں
(ریحان اختر)
قوموں کی حیات ان کی بقا اور وقار کا دارومدار روایات،تعلیم،معاشی و معاشرتی ترقی پر منحصر ہے۔خالق کائنات نے تعلیم کو ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض کردیا۔رحمت اللعالمین حضرت محمّد مُصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے جہان کیلئے معلم و رہبر بنا کر بھیجا گیا۔مسلمانوں کے عروج میں جہاں ان کی شجاعت اورپختگیِ ایمان نے انہیں دوسری قوموں کے مقابلے بلند و برتر بنایا،وہیں دینی و دنیوی علوم کے علماء وماہرین نے قوم کے وقار کو بلند کیا۔اس کے برعکس قوم کے موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو مسلمانوں کا شمار تعلیمی و معاشی طور پر حد درجہ پسماندہ اقوام میں ہوتا ہے۔ملکی سطح پر مسلمانوں کے حالات جاننے کیلئے تشکیل دی جانے والی مختلف کمیٹیوں کی رپورٹ بھی یہ بات کہی گئی کہ مسلمان تعلیمی میدان میں دلتوں سے بھی زیادہ پچھڑے ہوئے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک وقت میں سائنس،فلکیات،طبعیات،ریاضی اور دیگر علوم میں نئی ایجادات اور تجربات کی بنا پر تعلیمی افق پر چمکنے والی قوم آخر اس قدر پسماندگی کا شکار کیسے ہو گئی؟جواب ہر کس ناکس کو پتہ ہے کہ قوم کی پستی کی وجہ کیا ہے؟مگر ضرورت ہے غور وفکر کرنے کی،کمیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرنے کی،اپنی مجرمانہ خموشی کو توڑنے کی اور اپنی ذات سے اصلاح کی ابتداء کرنےکی۔ہمارے اطراف کے ماحول،بچوں اور نوجوانوں کے طور طریقے پر نظر ڈالیں اور اپنے دل سے ایک سوال کریں کہ اس قوم کا مستقبل کیا ہوگا؟تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ کا فرق ختم ہوتا جارہا ہے۔حالات کی سنگینی کا علم ہوتے ہوئے بھی معاشرتی بگاڑ اور بے راہ روی پر آنکھ موند لی جارہی ہے۔ہم سے کیا کرنا ہے؟ہم کیا کرلیں گے؟ ہماری کون سنے گا؟جس کا کام ہے اسے کرنے دیں؟ جیسے خیالات حاوی ہوتے جارہے ہیں اور ہم اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کررہے ہیں۔اگر جس کا کام ہے اسے کرنے دیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس کا کام ہے؟والدین؟اساتذہ؟علماء؟مدارس یا پھر اسکول؟بے شک بچوں کی تربیت کی پہلی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔لیکن والدین کیا اس ذمہ داری کو پوری ایمانداری سے پورا کررہے ہیں؟اگر جواب ہاں ہے تو پھر اپنا محاسبہ کریں کہ ہمارے بچے موبائل کا بےجا استعمال کیوں کرتے ہیں؟ہمارے بچےہوٹلوں چوک چوراہوں پر دیر رات تک گپ شپ لگاتے وقت کیوں ضائع کررہے ہیں؟معمولی سی بات پر بڑے بڑے جھگڑے کیوں ہورہے ہیں؟چوک چوراہوں اور گلی محلے میں آپسی بات چیت میں بچے اور نوجوان ہر بات میں اپنی زبان سے بے ہودہ گالیاں کیوں نکال رہے ہیں؟ہمارے نوجوان اپنے ہی لوگوں پر زور آزمائی کرتے ہوئے جان لیوا حملے کیوں کررہے ہیں؟کیا کوئی والدین چاہیں گے کہ ان کی اولاد ایسی ہو؟ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بالکل نہیں۔تو خدارا اپنی ذات کا محاسبہ کریں،اپنی کوتاہیوں کا اقرار کریں،اپنے بچوں کو ڈاکٹر انجنیئر بنائیں یا نہ بنائیں لیکن انسان اور مومن ضرور بنائیں۔اساتذہ تعلیمی نصاب پر اکتفا نہ کریں۔اگر آپ کو معمار قوم کہا جاتا ہے تو آپ اپنا حق ادا کریں۔طلباء کے ساتھ شفقت اور محبت سے پیش آئیں۔ان کے ساتھ انصاف کریں انہیں نیپوٹزم اور فیورٹ ازم(Nepotism and favouritism کا شکار نہ ہونے دیں۔آج تک جیسے تیسے سب کچھ چلتا رہا لیکن اب قوم کے ساتھ اگر اپنوں نے وفا نہیں کی تو قوم کا شیرازہ بکھرنے میں وقت نہیں لگے۔اساتذہ اس بات پر غور کریں کہ طلباء ان کی عزت کیوں نہیں کرتے۔کیا وہ اپنے پیشے کے ساتھ مخلص ہیں یا صرف بہ حالت مجبوری نصاب پورا کرنا ان کا نصب العین بن گیاہے۔تعلیمی اداروں کا معیار بھی قابل افسوس حد تک گرتا جارہا ہے۔ٹیوشن کلچر عروج پاتا جارہا ہے۔قابل اساتذہ معمولی تنخواہوں پر تدریس کرنے پر مجبور ہیں۔طلباء کی دلچسپی اور ان کی قابلیت کو پرکھنے والے اساتذہ کا فقدان ہے۔کرئیر کاؤنسلنگ اور گائیڈنس کے نام پر طلباء کے مستقبل سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔شہر کے کسی بڑے ادارے میں کرئیر کاؤنسلر رکھنے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے جہاں طلباء کو جدید تعلیمی تقاضوں سے بہرہ ور کیا جائے۔تمام ادارے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ ودو کررہے ہیں لیکن قوم کو دوسری قوموں پر سبقت دلانے کا کوئی منظم خاکہ ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔قومیت کا تصور تک باقی نہیں رہا۔ان سب کیلئے کسی فرد واحد یا انجمن کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا بھی درست نہیں ہے لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہم کب ایک قوم بن کر ان مسائل کے سد باب کیلئے کھڑے ہوں گے۔اب کس وقت اور کن حالات کا انتظار ہے؟کچھ افراد،ادارے اور تنظیمیں جو اس نہج پر خلوص سے کام کررہے ہیں اللہ ان کی کاوشوں کو قوم کیلئے کارآمد بنائے اور انہیں منظم کرے تاکہ شہر میں ایک فضا قائم ہوسکے۔ایک فرد،ایک ادارہ یا ایک تنظیم ہی کیوں نا اس ضمن میں منظم لائحئہ عمل کے تحت کام کی ابتداء کرے لیکن کام کرنا ناگزیر ہے۔سوچنے کیلئے وقت نہیں ہے۔اگر آج شہر کے تعلیمی،معاشی اور معاشرتی نظام کو بہتر بنانے کیلئے ایک منظم لائحئہ عمل تیار کیا جاتا ہے تو ان شاء اللہ جلد ہی اس کے اثرات ظاہر ہوں۔انفرادی یا اجتماعی طور پر جو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے ایک کوشش سمجھ کر ہی سہی کر کے دیکھیں۔تاکہ قوم کو اس کا کھویا ہوا وقار واپس مل سکے۔
Post A Comment:
0 comments: