جسٹس یو یو للت کی زیرصدارت  تین ججوں کی بنچ نے کہا کہ اتنے لمبے عرصے کے بعد ان معاملات کی سماعت کا کوئی فائدہ نہیں

سپریم کورٹ نے 2002 کے گجرات فسادات سے متعلق تمام مقدمات کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس یو یو للت کی زیرصدارت  تین ججوں کی بنچ نے منگل کو کہا کہ اتنے لمبے عرصے کے بعد ان معاملات کی سماعت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ گجرات فسادات سے متعلق کئی عرضیاں سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ گجرات فسادات سے متعلق 9 میں سے 8 مقدمات میں نچلی عدالتوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ نرودا گاؤں سے متعلق کیس کی سماعت ابھی جاری ہے۔  ایسی صورتحال میں اس سے متعلق کسی بھی معاملے کو الگ سے سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ حکم این ایچ آر سی اور این جی او کی درخواست پر دیا. سپریم کورٹ نے فسادات سے متاثر خاندانوں، این ایچ آر سی اور ایک این جی او سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کیس کو بند کرنے کا حکم دیا۔ ان تمام عرضیوں میں تمام معاملات کو پولیس کے بجائے سی بی آئی کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ اس کیس (گجرات فسادات 2002) سے متعلق عرضیوں کی سماعت کی ضرورت نہیں ہے۔  اسی لیے ہم تمام کیسز بند کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔

 فروری 2002 کو گجرات کے گودھرا اسٹیشن پر سابرمتی ایکسپریس ٹرین کی 5-6 بوگیوں کو آگ لگا دی گئی تھی۔ آگ لگنے سے 59 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ سب کار سیوک تھے، جو ایودھیا سے واپس آرہے تھے۔ اس کے بعد گجرات میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی۔ گودھرا میں تمام اسکول اور دکانیں بند کردی گئیں۔کرفیو لگا دیا گیا۔ فسادیوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔ گودھرا واقعہ کے بعد پورے گجرات میں فسادات پھوٹ پڑے۔ ان فسادات میں 1,044 لوگ مارے گئے جن میں 790 مسلمان اور 254 ہندو تھے۔ شرپسندوں نے مشرقی احمد آباد میں اقلیتی برادری کی بستی گلبرگ سوسائٹی کو نشانہ بنایا تھا۔ اس میں ذکیہ جعفری کے شوہر سابق کانگریس ایم پی احسان جعفری سمیت 69 لوگ مارے گئے تھے۔

ایس آئی ٹی کی تشکیل سپریم کورٹ نے 2008 میں کی تھی۔ عدالت نے ایس آئی ٹی کو اس معاملے میں تمام سماعتوں پر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔ بعد میں ذکیہ جعفری کی شکایت کی جانچ بھی ایس آئی ٹی کو سونپ دی گئی۔ ایس آئی ٹی نے مودی کو کلین چٹ دے دی اور 2011 میں سپریم کورٹ کے حکم پر ایس آئی ٹی نے مجسٹریٹ کو کلوزر رپورٹ پیش کی۔ 2013 میں ذکیہ جعفری نے مجسٹریٹ کے سامنے کلوزر رپورٹ کی مخالفت کرتے ہوئے درخواست دائر کی تھی۔ مجسٹریٹ نے اس درخواست کو مسترد کر دیا۔ اس کے بعد ذکیہ نے گجرات ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ ہائی کورٹ نے 2017 میں مجسٹریٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ پھر ذکیہ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ سپریم کورٹ نے 24 جون کو 2002 کے گجرات فسادات میں اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو کلین چٹ دینے والی ایس آئی ٹی کی رپورٹ کے خلاف اور وزیر اعظم مودی کے خلاف ذکیہ جعفری کی عرضی کو خارج کر دیا۔  سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ذکیہ کی درخواست میں کوئی میرٹ نہیں۔

Axact

TRV

The Name you Know the News you Need

Post A Comment:

0 comments: