چیف جسٹس آف انڈیا 13 مئی کو سبکدوش ہوں گے، بی آر گوائی 14 مئی کو بحیثیت چیف جسٹس حلف لیں گے
سپریم کورٹ نے وقف (ترمیمی) قانون کو چیلنج دینے والی عرضیوں پر سماعت ملتوی کردی ہے۔ اس معاملے پر اب 15 مئی کو سماعت ہوگی، کیونکہ بنچ نے کہا کہ اس نے ابھی تک اس معاملے پر حکومت کے حلف نامہ کا پوری طرح سے جائزہ نہیں لیا ہے۔
ہندوستان کے موجودہ چیف جسٹس سنجیو کھنہ 13 مئی کو سبکدوش ہونے والے ہیں اور اب یہ معاملہ جسٹس بی آر گوائی کی سربراہی میں ایک نئی بنچ کے سامنے پیش کیا جائے گا، جو 14 مئی کو بحیثیتِ چیف جسٹس حلف لینے والے ہیں۔ ان عرضیوں نے قومی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے کیونکہ ان میں ترمیم شدہ وقف قانون کے آئینی جواز اور مضمرات پر سوال اٹھایا گیا ہے، خاص طور پر زمین کی ملکیت اور مذہبی وقف کے معاملات میں۔ اس قانونی لڑائی کے وسیع نتائج ہوسکتے ہیں، اور اب سب کی نظریں چیف جسٹس آف انڈیا کی زیر قیادت نئی بنچ پر ہیں جو مئی کے وسط میں اس پر سماعت کرے گی۔ اس سے پہلے 17 اپریل کو مرکز نے سپریم کورٹ کو یقین دلایا تھا کہ وہ 5 مئی تک وقف املاک کو ڈی نوٹیفائی نہیں کرے گا اور نہ ہی سینٹرل وقف کونسل اور بورڈمیں کوئی تقرری کرے گا۔ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کی اس تجویز کی بھی سخت مخالفت کی تھی جس میں وقف املاک بشمول 'وقف بائے یوزر' کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف عبوری حکم جاری کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
*وقف ترمیمی قانون*
مرکز نے 5 اپریل کو صدر دروپدی مرمو کی منظوری ملنے کے بعد پچھلے مہینے وقف (ترمیمی) ایکٹ، 2025 کو نوٹیفائی کیا تھا۔ اس بل کو لوک سبھا نے ٢٨٨ ارکان کی حمایت سے منظور کیا تھا جبکہ ٢٣٢ ارکان نے اس کی مخالفت کی تھی۔ راجیہ سبھا میں اس کے حق میں 128 اور مخالفت میں 95 ووٹ پڑے۔ ڈی ایم کے، وائی ایس آر سی پی، اے آئی ایم آئی ایم، بائیں بازو کی جماعتوں، این جی اوز، مسلم تنظیموں اور دیگر جیسی سول سوسائٹی گروپوں نے اس قانون کے جواز کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
وائے ایس جگن موہن ریڈی کی زیر قیادت وائے ایس آر کانگریس پارٹی نے وقف ترمیمی قانون 2025 کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرتے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے.
پارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ وقف ترمیمی ایکٹ بنیادی طور پر اوقاف کے انتظامی امور کو کمزور کرتے ہوئے ان پر حکومتی کنٹرول کو نافذ کرتا ہے.
وائی ایس آر سی پی نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ایکس پر عرضی کے بارے میں جانکاری دیتے ہوئے کہا کہ وائی ایس آر سی پی نے سنگین آئینی خلاف ورزیوں اور مسلم برادری کے خدشات کو دور کرنے میں ناکامی کا حوالہ دیتے ہوئے وقف ایکٹ کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے۔ یہ بل آئین کے آرٹیکل 13، 14، 25 اور 26 کی خلاف ورزی کرتا ہے جو بنیادی حقوق، مساوات، مذہبی آزادی اور اپنے مذہبی معاملات خود چلانے کی خودمختاری کی ضمانت دیتے ہیں۔اس پوسٹ میں مزید کہا گیا کہ دفعہ 9 اور 14 کے تحت غیر مسلم ممبروں کو شامل کرنے کو وقف اداروں کے اندرونی کام کاج میں مداخلت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ شق بورڈز کے مذہبی کردار اور انتظامی آزادی کو کمزور کرتی ہے۔
تاملاگا ویتری کاژگم (ٹی وی کے) سربراہ وجے، اے آئی ایم آئی ایم رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی، کانگریس ایم پی محمد جاوید اور عمران پرتاپ گڑھی، عام آدمی پارٹی (اے اے پی) ایم ایل اے امانت اللہ خان، آزاد سماج پارٹی سربراہ چندر شیکھر آزاد اور سماج وادی پارٹی (ایس پی) رکن پارلیمنٹ ضیا الرحمن برق نے بھی اس قانون کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اتوار 13 اپریل کو ہریانہ میں ایک عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وقف قانون پر کانگریس پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ وہ مسلمانوں کی حالت زار کو نظر انداز کرتے ہوئے لینڈ مافیا کو مدد فراہم کر رہی ہے۔
وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ اس قانون کی سابقہ شکل کا کئی دہائیوں سے استحصال کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں اسی کمیونٹی کو معاشی مواقع سے محروم کر دیا گیا ہے۔
آرٹیکل 370 عارضی تھا، مرکز کے ہر فیصلے کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا
جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹانے کا فیصلہ برقرار رہے گا۔ سی جے آئی چندر چوڑ نے پانچ ججوں کی بنچ کا فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا کی آرٹیکل 370 عارضی تھا۔ اسے ایک مقررہ مدت کے لیے لایا گیا تھا۔ مرکز کے ہر فیصلے کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں:....صوبائی جمعیت کے ارکان عاملہ نےتاریخِ اہل حدیث پر مقالے کی اشاعت کومنظوری دی
جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ اگر مرکزی حکومت کا کوئی فیصلہ پریشانی کا سبب بنتا ہے تو اسے چیلنج کیا جاسکتا ہے. عدالت نے کہا کہ آرٹیکل ٣٥٦ کے بعد یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ مرکز پارلیمنٹ کے ذریعے ہی قانون بنا سکتا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے یہ بھی کہا کہ اس میں تین ججوں کا فیصلہ شامل ہے، ایک فیصلہ میرا، جسٹس گوئی اور جسٹس شری کانت کا ہے، دوسرا فیصلہ جسٹس کول کا ہے جبکہ جسٹس کھنہ دونوں فیصلوں سے متفق ہیں.
اس فیصلے سے جموں کشمیر میں سیاسی ہلچل بڑھ گئی ہے. پی ڈی پی نے الزام عائد کیا کہ فیصلے سے قبل پولیس نے ان کی لیڈر محبوبہ مفتی کو غیر قانونی طریقے سے نظربند کردیا. حالانکہ نائب گورنر نے کسی کو بھی نظر بند کئے جانے سے انکار کرتے ہوئے اسے افواہ پھیلانے کی کوشش قرار دیا ہے.
مودی حکومت نے اپنی دوسری میعاد میں 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا تھا۔ حکومتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کل 23 درخواستیں دائر کی گئیں۔ پانچ ججوں کی بنچ نے تمام درخواستوں کی ایک ساتھ سماعت کی۔ 16 دن تک جاری رہنے والی سماعت 5 ستمبر کو ختم ہوئی۔ جس کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
اگر شادی شدہ خواتین کو اسقاط حمل کی اجازت ہے تو غیر شادی شدہ خواتین کو اس سے محروم نہیں کیا جا سکتا، عدالت قانون میں ترمیم پر غور کرے گی، بنچ کا فیصلہ
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ غیر شادی شدہ خواتین کو اسقاط حمل کے حق سے انکار کرنا ان کی شخصی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت غیر شادی شدہ خواتین کو بھی اسقاط حمل کی اجازت دینے کے لیے اس قانون کو تبدیل کرنے پر غور کرے گی۔ عدالت میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی ایکٹ اور متعلقہ قواعد کی تشریح کرے گی اور یہ فیصلہ کرے گا کہ کیا غیر شادی شدہ خواتین کو 24 ہفتوں میں اسقاط حمل کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جے بی پاردی والا کی بنچ نے جمعہ کو ایک کیس کی سماعت کے دوران یہ بات کہی۔ بنچ نے مرکز کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایشوریہ بھاٹی سے کہا کہ وہ اس عمل میں عدالت کی مدد کریں۔ اسقاط حمل کے لیے ڈاکٹروں کے مشورے کی ضرورت کے معاملے کی سماعت کے دوران جسٹس چندر چوڑ نے پوچھا کہ غیر شادی شدہ خواتین کو 24 ہفتوں میں حمل ختم کرنے کے قانون میں کیوں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسقاط حمل کے لیے ڈاکٹر سے مشورہ ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں :.... جگدیپ دھنکھر نائب صدر جمہوریہ منتخب
بنچ نے کہا کہ قانون صرف شادی کے بعد خواتین کے حاملہ ہونے سے متعلق نہیں ہے، یہ قانون غیر شادی شدہ خواتین سے بھی متعلق ہے۔ اگر شادی شدہ خواتین کو اسقاط حمل کی اجازت ہے تو غیر شادی شدہ خواتین کو اس سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ ہر عورت کی زندگی قانون کی نظر میں اہمیت رکھتی ہے۔ یہ معاملہ دہلی ہائی کورٹ میں تھا، جہاں 15 جولائی کو عدالت نے اسقاط حمل پر روک لگا دی تھی۔ عدالت نے کہا تھا کہ غیر شادی شدہ عورت جو رضامندی سے حاملہ ہو گئی ہے وہ میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی (ایم ٹی پی) رولز 2003 کے تحت اسقاط حمل نہیں کروا سکتی۔ سماعت کے دوران دہلی ہائی کورٹ کی بنچ نے اپنے زبانی ریمارکس میں کہا تھا کہ اس مرحلے پر اسقاط حمل بچے کے قتل کے مترادف ہوگا۔ ساتھ ہی دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی صدارت والی بنچ نے گود لینے کے لیے بچے کو جنم دینے کا مشورہ دیا تھا۔ چیف جسٹس ستیش چندر شرما نے کہا تھا کہ آپ بچے کو کیوں مار رہے ہیں؟ بچے کو گود لینے والوں کی ایک لمبی لائن ہے۔
اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ نے سماعت کی اور کہا کہ ہائی کورٹ نے ایم ٹی پی کی دفعات پر روک لگانے میں غلط طریقہ اختیار کیا ہے۔ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ عورت کے درمیان فرق کا قانون میں استثنیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ 2021 میں ترمیم کے بعد میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی ایکٹ کے سیکشن 3 کی وضاحت میں شوہر کے بجائے پارٹنر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ حکم نامہ جاری کرتے ہوئے عدالت نے یہ بھی کہا کہ ہمارا مقصد ازدواجی تعلقات سے پیدا ہونے والے حالات کو محدود کرنا نہیں ہے بلکہ ایسے حالات میں کسی بھی غیر شادی شدہ خاتون کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے تاکہ اسے اسقاط حمل سے روکنا صحیح نہیں ہے. دہلی ہائی کورٹ سے اس کے حق میں فیصلہ نہ آنے کے بعد درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، جہاں اس نے عدالت کو بتایا کہ وہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہے۔ اس کے والدین کسان ہیں۔ خاندان کے پاس روزی روٹی کے ذرائع بھی نہیں ہیں۔ ایسی حالت میں وہ بچے کی پرورش کرنے سے قاصر رہے گی۔