شہر کےصحافتی معیار میں گراوٹ، صحافیوں پر اکثر و بیشتر ہونے والی تنقیدوں کا ذمہ دار کون؟ صحافیوں کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت
شہر مالیگاؤں میں ادبی و صحافتی ذوق رکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ان میں سے ایک اے ٹی ٹی ہائی اسکول کے مدرس نعیم سلیم سر کی ایک تحریر "پریس" نظر سے گزری۔جس میں انہوں نے لفظ پریس کے مختلف معنی وقت کے ساتھ ساتھ ان کے ادراک کا ذکر بڑے ہی مزاحیہ انداز میں کیا ہے۔
بے شک صحافت جمہوریت کا چوتھا ستون ہے لیکن آج صحافتی اقدار کی جس قدر دھجیاں اڑائی جارہی ہیں صحافت اور صحافیوں کی قدر و منزلت میں بتدریج کمی آتی جارہی ہے۔صحافی رعب اور دبدبہ ضرور ہوا کرتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ صحافی ہو۔جس طرح نعیم سر نے اپنی تحریر میں ایک مخصوص طبقہ پر طنز کیا ہے جو موٹر سائیکلوں پر پریس لکھوانے اور پریس کارڈ یافتہ ہونے کے سبب ایسا محسوس کرنے لگتا ہے جیسے اسے سرخاب کے پر لگ گئے ہوں، اب نہ تو اسے کوئی روک ٹوک سکتا ہے نا پولیس اس کا کچھ بگاڑ سکتی۔آج باکل ایسا ہی دیکھا جارہا ہے۔صحافت کے حروف تہجی سے بھی ناواقف کچھ لوگ اپنی گاڑیوں پر پریس لکھوا کر، پریس کارڈ لے کر اس طرح شہر بھر میں دندناتے پھر رہے ہیں جیسے ان سے بڑا صحافی کوئی نہ ہو۔لیکن صاحب حقیقت تو یہ ہے کہ صرف گاڑی پر پریس لکھوانے اور کارڈ رکھنے سے کوئی صحافی نہیں بن جاتا۔آپ کسی درجہ میں صحافت سے ضرور منسلک ہوسکتے ہیں لیکن صحافی بننا اور بطور صحافی ذمہ داریاں نبھانا منہ کا کھیل نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں :۔۔۔۔۔مالیگاؤں کے موجودہ حالات،عوام اور میڈیا کا کردار
نعیم سر کی تحریر حقیقت پر مبنی ہے، انہوں نے موجودہ حالات اور صحافیوں کے کردار پر بڑے ہی خوبصورت انداز میں خفیف سا طنز کیا ہے۔ لیکن سنجیدگی سے غور کیا جائے تو ان کی تحریر اصل صحافیوں کو جھنجوڑنے والی ہے۔ آج جعلی پریس کارڈ جاری کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا، ایک بڑی رقم کے عوض کارڈ جاری کئے جارہے ہیں۔ لیکن شاید ایسا کرنے والوں کو علم نہیں ہے کہ یہ کتنا خطرناک ہوسکتا ہے۔
لاک ڈاؤن کے بعد ایسا لگتا ہے شہر میں رپورٹرز (دانشتہ طور پر صحافی کی اصطلاح استعمال نہیں کی گئی ہے) کا سیلاب آگیا ہے۔حتی کہ سیاسی لیڈران کی جانب سے آئے دن بیانات بھی سامنے آرہے ہیں کہ کتے کو پتھر مارو تو یوٹیوبر کو لگتا ہے۔صحافت کا نام کیوں اس قدر بدنام ہوگیا ہے؟ نعیم سر کی تحریر حالانکہ ہلکا سا طنز ہے لیکن ایسے بہت سے لوگ ہیں جو صحافیوں اور شہر کی صحافت پر طنز کستے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور اس کی ذمہ داری بہرحال صحافت سے وابستہ افراد پر عائد ہوتی ہے۔سنجیدہ صحافیوں کو اس تعلق سے فکر کرنے اور ضروری اصلاحات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔کم از کم صحافت سے وابستہ افراد کو بنیادی اصول، زبان، صحافتی اقدار اور اسلوب سے واقفیت پر زور دینا چاہیے۔آج شہر میں صحافیوں کا جو مقام ہے وہ واقعی قابل تشویش ہے، صحافت سے وابستہ اہل علم حضرات کو اس جانب خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
Post A Comment:
0 comments: