اس معاملے میں پیش کئے جانے والے ثبوتوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عشرت جہاں اور اس کے ساتھی دہشت گرد نہیں تھے: خصوصی سی بی آئی جج
عشرت جہاں انکاؤنٹر معاملے میں بدھ کے روز احمد آباد کی خصوصی سی بی آئی عدالت نے اہم فیصلہ صادر کرتے ہوئے اس معاملے کے ملزمین آئی پی ایس افسر جی ایل سنگھل،ترون باروٹ اور سب انسپکٹر اناجو چودھری کو بری کردیا ہے۔جون2004 میں کرائم برانچ نے احمد آباد کے ایک علاقے میں عشرت جہاں اور اسکے تین ساتھیوں جاوید شیخ، امجد علی اور ذیشان جوہر کا انکاؤنٹر کردیا تھا۔جس کے بعد اس انکاؤنٹر پر سوالات اٹھنے لگے تھے۔اس انکاؤنٹر پر فرضی انکاؤنٹر کے شکوک و شبہات ظاہر کئے جارہے تھے۔عدالت نے کہا کہ کرائم برانچ افسران جی ایل سنگھل، ترون باروٹ اور اناجو چودھری نے آئی بی(انٹلیجنس بیورو) سے موصول اطلاعات کی بنا پر کارروائی کی تھی جس طرح انہیں کرنی چاہیے تھی۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ عشرت جہاں کو دہشت گرد تسلیم نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔پولیس افسران نے خو معاملہ انجام دیا وہ وقت کا تقاضہ تھا، ایسا نہیں لگتا کہ انہوں نے کچھ بھی جان بوجھ کر کیا تھا۔معاملے کی سماعت کرتے ہوئے خصوصی سی بی آئی جج وی آر راول نے کہا کہ اس معاملے میں جو بھی ثبوت پیش کیا گیا ہے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عشرت جہاں اور اس کے ساتھی دہشت گرد نہیں تھے۔واضح رہے کہ مذکورہ انکاؤنٹر معاملہ کی قیادت احمد آباد کے ڈٹیکشن آف کرائم برانچ یونٹ کے ونجارا نے کی تھی۔پولیس کا کہنا تھا کہ وہ عشرت اور اس کے ساتھی لکشرطیبہ سے منسلک تھے اور اس وقت کے گجرات کےوزیراعلی نریندر مودی کے قتل کی سازش رچ رہے تھے۔اس معاملے میں 2013 میں سی بی ائی نے فرد جرم عائد کی تھی اور اس میں سات پولیس افسران کو ملزم بتایا تھا۔اس میں ڈی جی ونجارا کے علاوہ گجرات کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس پی پی پانڈےاور ڈپٹی چیف آف پولیس این کے امین پر بھی الزام عائد کئے گئے تھے،ان سب کو عدالت نے تمام الزامات سے بری کردیا تھا۔
Post A Comment:
0 comments: