جامعہ وائس چانسلر نجمہ اختر نے دانش کے انتقال پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دانش طلباء کے رول ماڈل ہیں، ان کی تصاویر اور کارہائے نمایاں طلباء کو تحریک دیتے رہیں گے
نئی دہلی: اتوار کی شام رائٹرز خبر رساں ایجنسی کی ٹیم نے افغانستان میں نیوز کوریج کے دوران جاں بحق ہونے والے اپنے ساتھی فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کا جسد خاکی وصول کیا۔ آج دیر رات جامعہ قبرستان میں انہیں سپرد خاک کیا گیا۔جامعہ کے ذرائع نے بتایا کہ دانش کا جسد خاکی جامعہ کے قریب واقع غفار منزل ان کے والدین کے گھر لے جایا گیا جس کے بعد جامعہ مڈل اسکول میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔دانش کی جرمن بیوی وہ اس وقت جرمنی میں نہیں تھی وہ صبح کی آئی ہیں۔ذرائع نے تصدیق کی کہ اتوار کی سہ پہر دانش کا جسد خاکی ائیر انڈیا کے ذریعے کابل سے دہلی پہنچایا گیا۔ہندوستانی حکومت کی جانب سے ڈیتھ سرٹیفکیٹ، کفن اور این او سی جاری کیا گیا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ وائس چانسلر نجمہ اختر نے تصدیق کہ انہوں نے دانش کے والد پروفیسر اختر صدیقی کی خصوصی درخواست پر جامعہ قبرستان میں دانش کی تدفین کی اجازت دی ہے جو جامعہ فیکلٹی آف ایجوکیشن کی حیثیت سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔جامعہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ وائس چانسلر نے مرحوم فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کے جسد خاکی کو جامعہ قبرستان میں دفن کرنے کی ان کے اہل خانہ کی درخواست کو قبول کرلیا ہے، جبکہ جامعہ قبرستان جامعہ کے ملازمین، ان کے اہل خانہ کیلئے مخصوص تھا۔جامعہ وائس چانسلر نے دانش کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان کی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ہم جامعہ کی ایم ایف حسین گیلری میں ان کی غیر معمولی تصاویر کی نمائش کا انعقاد کریں گے اور ان کی یادوں کو زندہ رکھیں گے۔طلباء دانش کو رول ماڈل کے طور پر دیکھتے تھے، ان کی تصاویر طلباء کو حوصلہ دیتی رہیں گی۔دانش نے 2005-2007 میں جامعہ کے اے کے جے ماس کمیونیکیشن رسرچ سینٹر سے تعلیم حاصل کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:۔۔۔۔نندوربار: کار حادثہ میں آٹھ افراد ہلاک
انہوں نے ٹیلیویژن نیوز کے نمائندے کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اسکے بعد فوٹو جرنلزم کو بطور پیشہ اختیار کیا۔انہوں نے عراق، ہانگ کانگ اور نیپال تک جنگی علاقوں اور بحران کا احاطہ کیا۔2010 میں انہوں نے بطور انٹرن رائٹرز میں شمولیت اختیار کی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے رائٹرز کے چیف فوٹو گرافر بن گئے۔2018 میں اپنے ساتھی عدنان عابدی اور دہگر پانچ افراد کے ساتھ میانمار میں اقلیتی روہنگیا برادری کو درپیش تشدد کی دستاویز تیار کرنے پر انہوں نے فیچر فوٹو گرافی میں پلٹزر ایوارڈ حاصل کیا۔وبائی امراض کی دوسری لہر کے عروج پر لی گئی ڈرون تصاویر نے انہیں عالمی سطح پر شہرت اور شناخت عطا کی۔
Post A Comment:
0 comments: