از قلم: ریحان اختر

کافی عرصے سے اس تعلق سے کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس ہورہی تھی، اسی عرصہ میں سوشل میڈیا پر کچھ تحریریں نظر سے گزریں جس میں شہر میں بھیک مانگنے والوں سے متعلق بہت کچھ لکھا گیا۔اس تعلق سے قلم کو جنبش دینے کے پس پشت کچھ اہم وجوہات اور کارفرما ہیں۔دراصل اکثر ایسا ہوتا ہے کہ رات کے وقت کسی سڑک، چوک چوراہے یا مسجد کے پاس سے گزرتے وقت معمر خواتین بیٹھی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جو بھیک مانگ رہی ہوتی ہیں۔اسی طرح قلب شہر کی ایک مسجد کے دورازے پر ایک خاتون کو دیکھا جو دیوار سے ٹیک لگائے سورہی تھی اس کے دو معصوم بچے زمین پر سوئے ہوئے تھے، دسمبر کی خون منجمد کردینے والی سردی اپنے عروج پر تھی۔ایسے میں دیر رات ایک خاتون اور دو معصوم بچوں کو معمولی مہین سی چادر اوڑھے سڑک پر سوتا دیکھ طبعیت میں ایک اضطراب سا پیدا ہوا ہے۔اس منظر نے جنجھوڑ کر رکھ دیا۔اپنے ساتھ موجود ایک ساتھی جو اسی محلے کا ساکن ہے، سے میں نے کہا کہ وہ محلے کے کسی معتبر شخص کے ذریعے اس خاتون کے حالات، اس کی مجبوری اور دیر رات  بھیک مانگنے کی وجہ دریافت کرے۔لیکن بدقسمتی اس معاملے میں پیش رفت نہ ہوسکی اور دل میں ایک خلش سی رہ گئی۔اس وقت یہ خیال آیا کہ ایسی کیا مجبوری ہے کہ ہماری قوم کی خواتین دیر رات، چوک چوراہوں، سڑکوں اور مساجد کے دروازے پر اپنے معصوم بچوں کے ساتھ بیٹھ کر روپے دو روپے کا سوال کررہی ہیں۔روزانہ متعدد افراد ان کے سامنے سے گزرتے ہیں، مخیر حضرات ان کی مدد کرتے ہیں، اور اکثریت ان کو نظر انداز کرتے ہوئے گزر جاتی ہے۔لیکن اگر وہ واقعی مجبور ہیں تو کیا 10 ، 20 اور 50 روپے کی مدد کردینے سے ان کے مسائل حل ہوجائیں گے؟ اور اگر وہ مجبور یا مستحق نہیں ہیں تو ہم انہیں روپے پیسے دے کر بھیک مانگنے کا عادی تو نہیں بنارہے؟ بے شک صدقہ بہترین عمل ہے۔لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اسلام میں ایسے شخص کو جس کے پاس ایک دن کے صبح و شام کے کھانے کا انتظام ہے موجود ہے، سوال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔حضرت سہل بن الحنظلیۃ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس ایک دن کے صبح وشام کے کھانے کا انتظام موجود ہے پھر بھی وہ سوال کرتا ہے تو وہ جہنم کی آگ اکٹھا کررہا ہے۔امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایسے شخص کیلئے سوال کرنا جائز نہیں ہے۔(حوالہ: مشکوۃ)


لہذا، راستوں اور بازاروں میں جو لوگ پیشہ ور طور پر مانگتے ہیں، مانگنا انہوں نے پیشہ بنا لیا ہے، اگر ان کو نہ دیا جائے تو کوئی گناہ نہیں ہوگا۔اور اگر قرائن سے اندازہ ہوکہ مانگنے والا ضرورت مند ہے تو حسب حیثیت اس کی مدد کی جائے۔حدیث قدسی میں اللہ تعالی نے فرمایا: اے ابن آدم! تو خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا۔اللہ تعالی نے فرمایا: امّا السّآئِل فلا تنہر۔(ترجمہ) سوال کرنے والوں کو جھڑکو مت، اور اگر گنجائش نہ ہو تو نرمی سے عذر کردیں۔(حوالہ: دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)


مانگنے والے دو قسم کے ہیں ایک مجبور اور دوسرے عادت سے مجبور۔

شہر میں آج کل مانگنے والوں کو تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے۔مرد، خواتین، بچے اور حتی کہ نقاب پوش لڑکیاں بھی چوک چوراہوں اور ہوٹلوں پر جاکر لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتی ہیں۔ان میں ضرورت مند اور پیشہ ور میں میں فرق کرنا مشکل ہے۔کچھ شہروں میں اس طرح کی مہم بھی شروع کی گئی کہ مانگنے والوں کو روپے پیسے نہ دیں بلکہ انہیں کھانا کھلائیں۔پیشہ ور طور پر مانگنے والوں کی بات نہیں کرتے لیکن پوری رات سڑکوں اور مساجد کے دروازے پر بیٹھنے والی خواتین کی خبر گیری اور ان کا احوال معلوم کیا جانا چاہیے۔اگر خاتون اپنے بچوں سمیت سخت سردی میں دیر رات تک مانگنے پر مجبور ہے تو کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم اس سے اس کی مجبوری معلوم کریں اس کے احوال جاننے کی کوشش کریں؟ کیا اہلیان محلہ ایسی خواتین اور ان کی مجبوریوں سے واقف ہیں؟ بحیثیت مسلمان پڑوسیوں کے حقوق ہم بھول تو نہیں گئے؟ کیا ہم اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ کسی کی مجبوری تک کا ہمیں علم نہی رہا؟ ضرورت اور مجبوری غیرت مندوں کو ایسا کرنے پر مجبور کررہی ہے تو ہمارے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔برقہ پوش لڑکیوں کا یوں ہوٹلوں اور بھیڑ بھاڑ والے مقامات پر مانگنا بھی غیر محفوظ ہے، خیر اس تعلق سے باشعور اور بیدار افراد بخوبی واقف ہوں گے کہ کیا کچھ ہوتا ہے اور کیا ہوسکتا ہے۔بظاہر یہ معمولی باتیں ہیں لیکن اگر ہم ایک صحت مند اور باوقار معاشرے کی تشکیل چاہتے ہیں تو ان بنیادی باتوں پر ہماری توجہ ہونی چاہیے۔ہر معاشرتی برائی کی فکر کرنا اور اس کے تدارک کی کوشش کرنا ہمارا اپنا فرض ہے۔

Axact

TRV

The Name you Know the News you Need

Post A Comment:

0 comments: