ازقلم: ریحان اختر

*میری گلی، میرا محلہ میری ذمہ داری*

شہر کے بااثر و باشعور طبقہ سے چند گذارشات و سفارشات 

شہر مالیگاؤں آج مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔بنیادی سہولیات سے محرومی، نشہ، غیر قانونی تجاوزات( اتی کرمن)، سڑکوں کی خستہ حالی، گلی محلوں میں گندگی کے ڈھیر اور جرائم میں اضافہ جیسے مسائل موضوع بحث ہیں۔سوشل میڈیا کے ذریعے روزانہ ایسے مسائل سے متعلق تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ مختلف ممکنہ حل بھی پیش کئے جاتے ہیں لیکن زمینی حقائق کا مشاہدہ کریں تو کہیں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی، مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔نشہ کی لت بڑھتی جارہی ہے، جو جرائم میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔

*آخر اس کی وجہ کیا ہے؟*
شہر کے دیگر مسائل جیسے صاف صفائی، سڑکوں کی درستگی، غیر قانونی تجاوزات پر کارروائی کیلئے شہری انتظامیہ میں مختلف شعبے موجود ہیں۔جن کے طریقہ کار سے ہر شہری واقف ہے۔لیکن اس کا دوسرا پہلو غورطلب ہے اور وہ یہ کہ ان مسائل کے ہم کتنے ذمہ دار ہیں۔آخر یہ مسائل کیونکر پیدا ہوئے؟ آج ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ شہر کے مذکورہ تمام مسائل حل ہوجائیں لیکن ان مسائل کو حل کرنے کے لئے ہم انتظامیہ سے امید لگائے بیٹھے ہیں اور ایسا سمجھنے لگے ہیں کہ ان مسائل کو حل کرنا صرف اور صرف انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ہم ایسا سمجھنے لگے ہیں کہ ہم نے اپنے اہل وعیال کی ذمہ داری پوری کردی، بچوں کا اچھے اسکولوں اور کالجوں میں داخلہ کروادیا، نمازوں کی پابندی کرلی بس ہماری ذمہ داری پوری ہوئی۔بے شک اتنا کچھ کرنے کے بعد آپ کچھ ذمہ داریوں سے بری الذّمہ ضرور ہوگئے لیکن کیا ایک باشعور شہری ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟ کیا بطور مسلمان ہم پر پڑوسیوں کے حقوق نہیں ہیں؟ کیا بطور والدین بچوں کی تربیت ہمارا فرض نہیں ہے؟ آخر حقوق العباد بھی تو کوئی چیز ہے نا۔ہم کیسے مطمئن ہوسکتے ہیں جب ہمارے سماج میں ہمارے اپنے گلی محلے میں مسائل ہی مسائل ہوں؟ کیا ہم بے حس قوم ہیں؟ یا اپنا مفاد ہمیں عزیز ہے؟ کیا ہم یہ تو نہیں سوچ رہے کہ مجھے کیا فرق پڑتا ہے؟ مجھے کیا تکلیف ہے؟ میں کیا کرسکتا ہوں؟ میں بول کر کیوں برا بنوں؟ جس کا کام ہے وہ جانے۔ بالکل لوگ ایسا ہی سوچتے ہیں اور یہ سوچ ہم پر حاوی ہوگئی ہے ہم اس سے باہر نکل نہیں پارہے یا نکلنا ہی نہیں چاہتے۔ لیکن ایک بات یاد رکھئے اگر یہی چلتا رہا تو آئندہ نسل بھی برباد ہوگی اورہمیں کوسے گی۔آج یہ انتہائی ضروری ہوگیا ہے کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ ان مسائل کے پیدا ہونے کی بنیادی وجوہات کیا ہیں تو کہیں نہ کہیں ہمیں اس بات کا ادراک ہوگا کہ تمام نہ سہی لیکن کچھ مسائل کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔آج شہر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں گندگی کے ڈھیر جابجا دیکھے جاسکتے ہیں، گھروں کے کوڑا کرکٹ گلی کے نکّڑ پر پھینکتے وقت ہم یہ نہیں سوچتے کہ یہاں کچرے کا ڈھیر لگ جائے گا اور اس سے ہمیں ہی تکلیف ہوسکتی ہے۔جب کچروں کے اس ڈھیر سے تعفن اٹھتا ہے اور کچرا گلی میں پھلینے لگتا ہے اور چلنا دشوار ہوجاتا ہے تب اس کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی جاتی ہے اور اس کی ذمہ داری انتظامیہ پر عائد کی جاتی ہے۔بے شک انتظامیہ بھی ذمہ دار ہے لیکن اس سے قبل یہ ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔

*غیر قانونی تجاوزات*
*ہم کتنے ذمہ دار؟*
شہر کی ہر سڑک حتی کہ گلیوں میں اس قدر غیر قانونی تجاوزات کر لئے گئے ہیں کہ سڑکوں اور گلی محلے میں چلنا دشوار ہے۔سواریوں کا گزرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ انتظامیہ سے کارروائی کا مطالبہ تو کیا جاتا ہے لیکن کیا ہم نے خود کبھی اس مسئلے کو حل کرنے سے متعلق سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے؟چیریٹی بگنس ایٹ ہوم (خیر کی ابتداء گھر سے ہوتی ہے) کے تحت ہمیں اپنی ذمہ داری اور فرض ادا کرنا چاہیے۔شہر سے مسائل کو ختم کرنے کی خواہش ہے تو ہمیں خود یہ کام کرنا ہوگا۔اگر ہم بھی اس میں ملوث ہیں تو پہلے ہمیں اپنی غلطی سدھارنے کی ضرورت ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا پڑوس صاف ستھرا ہو اور شہر غیر قانونی تجاوزات سے پاک ہو تو اس کی ابتداء خود سے ہونی چاہیے۔اگر ہم عہد کرلیں کہ ہم اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچنے دیں تو کسی کو بولنے، سمجھانے اور منع کرنے کی نوبت پیش نہیں آئے گی۔کچھ لوگوں نے اس جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ ہمیں صرف اپنی اصلاح کرنی۔انفرادی طور پر اگر ہم نے خود کی اصلاح کرنے کا تہیہ کرلیا تو غیر محسوس طریقے سے اجتماعی طور پر اصلاح ہوسکتی ہے۔ہمیں صرف ایک شخص کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا ہے اور اس کی اصلاح کرنی ہے وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ وہ ہم خود ہیں۔

شہر کے ایک معروف سیاستداں سے ایک موقع پر انٹرویو

( Bite) 

لینے کا اتفاق ہوا۔شہر کے حالات اور صاف صفائی کے فقدان پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے جو کچھ کہا اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا۔انہوں نے کہا کہ شہر میں کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی بستیاں ساتھ ساتھ ہیں۔مالدہ کالونی کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں صرف مسلمان ہی نہیں بستے بلکہ دیگر ذات کے لوگ بھی رہتے ہیں۔وہاں جائیے اور مشاہدہ کیجئے کہ مسلمانوں اور دیگر قوم کے رہائشی علاقوں میں کیا فرق ہے؟ پھر انہوں نے کہا کہ ہماری قوم کے لوگ سڑکوں اور گٹروں میں کچرا پھینکے کے عادی ہیں، جبکہ دوسری قوموں کے لوگوں میں اتنا سلیقہ تو ہے کہ وہ اپنے اطراف کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میڈیا ان سب باتوں کو نہیں دکھاتا۔بدقسمتی سے یہ تمام باتیں آف ریکارڈ کہی گئی۔اس تعلق سے جب میں نے سوچا تو مجھے احساس ہوا کہ اگر یہی باتیں آن ریکارڈ کہی گئی ہوتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔

*چوک چوراہوں پر کچروں کا ڈھیر:*
اکثر گلیوں کے نکّڑوں پر کچروں کا ڈھیر لگا ہوا ہے، گندگی دور تک پھیل جاتی ہے۔ اسی گندگی سے ہو کر ہمیں گزرنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی ہم کچرا پھیکنے سے باز نہیں آتے۔گلی محلے میں کوئی ایک ایسا شخص نظر نہیں آتا جو اس جانب توجہ دے، کارپوریٹر یا انتظامیہ کی توجہ اس جانب مبذول کروائے۔کچھ معاملات میں ایسا بھی سننے میں آیا ہے کہ کارپوریٹر کو کہا جاتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ میں اس گلی کی ووٹ سے چن کر نہیں آیا، اس گلی کے لوگوں نے مجھے ووٹ نہیں دیا۔تو ایسے میں لوگ کس کے پاس جائیں اور کن لوگوں کو اپنے مسائل بتائیں گے۔اگر حالات ایسے ہی رہے تو اس شہر کا اللہ ہی حافظ ہے۔
ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ اب انتظامیہ یا کارپوریٹر پر مکمل طور پر انحصار کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، ذاتی طور پر اس کی ذمہ داری قبول کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔ماشاء اللہ  شہر میں متعدد تنظیمیں اور ادارے سرگرم عمل ہیں انہیں کسی نہ کسی درجے میں اس تعلق سے جڑنے کی ضرورت ہے۔کم از کم جن علاقوں میں کلب اور ادارے موجود ہیں وہاں عوام کو بیدار کرنے اور انہیں اپنی ذمہ داری کا حساس دلانے کا سلسلہ شروع کیا جانا چاہیے۔جس طرح میرا خاندان میری ذمہ داری مہم ہے اسی طرز پر میری گلی میرا محلہ میری ذمہ داری مہم کا آغاز کیا جانا چاہیے۔یہ مہم کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔سیاسی، سماجی اور دینی و ملّی قائدین کو اس ضمن میں آگے آنا چاہیے اور ٹھوس اقدامات کرنے چاہیے۔آج حالات ایسے ہیں کہ مسلم محلوں کی شبیہ خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے، صرف ہمارا ہی شہر نہیں بلکہ دیگر شہروں میں بھی مسلم اکثریتی علاقوں کی یہی حالت ہے۔ایک چھوٹی سے پہل کی ضرورت ہے کوشش کرنا ہمارا کام ہے، باقی اللہ پر چھوڑ دیں۔
بااثر اور معتبر شخصیات اس پر توجہ دیں، ان کی باتوں کا اثر ہوگا۔

*چند سفارشات*
*گلی و محلے کی تنظیمیں، ادارے اور کلبیں اپنے اطراف کا جائزہ لیں۔

*اپنی سہولت کے مطابق محلے کا دورہ کیا جائے۔

*محلے کے سرکردہ افراد سے ملاقات کریں اور اس جانب توجہ دلائی جائے۔

*بوقت ضرورت کارپوریٹر اور سیاسی، سماجی و ملّی قائدین کے ساتھ مل کر بیداری مہم چلائی جائے۔

*اہلیان محلہ کو اپنی ذمہ داری کا حساس دلائیں اور اپنے اطراف صاف صفائی رکھنے کی ترغیب دی جائے۔

*گلی محلے میں غیر قانونئ تجاوزات نہ کرنے کی اپیل کی جائے۔

*سڑکوں پر دکانداروں اور ہوٹل مالکان سے خصوصی اپیل کی جائے کہ وہ سڑکوں پر اتی کرمن نہ کریں۔

*محلے کے ذمہ دار افراد اور ادارے ہر محلے میں ہر مہینہ کارپوریٹر اور سیاسی رہنماؤں کے دورے کروائیں۔

*پہلے اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش کریں اسکے بعد انتظامیہ کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں۔

*اسکولوں اور مدارس میں طلباء میں سماجی و معاشرتی شعور بیدار کیا جائے۔

*انتخابات کے دوران امیدواروں کی ورکری کرنے والے ادارے اور کلبیں کارپوریٹروں سے ملاقات کریں اور انہیں مسائل سے آگاہ کریں۔

*تعلیمی اداروں میں طلباء کو ڈسپلین سکھانے پر زور دیا جائے، اساتذہ معمار قوم ہیں، طلباء اور نوجوان قوم کا مستقبل ہیں تو اس کی صحیح رہنمائی ہونی چاہیے۔

قوم کو نسل در نسل برباد ہونے سے بچانا ہے تو اب مزید انتظار مہنگا ثابت ہوگا۔مسجدوں اور میناروں کا شہر ہونے کا خطاب تو مل گیا اس پر فخر بھی بہت کرلیا اب ڈسپلین، اخلاق اور کردار کے ذریعے بھی شہر کی شناخت کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

Axact

TRV

The Name you Know the News you Need

Post A Comment:

0 comments: