شیخ آصف کس پارٹی میں شامل ہوں گے؟مختلف قیاس آرائیوں کے درمیان کچھ متوقع متبادل پر ایک تجزیہ
تجزیہ: ریحان اختر
گذشتہ ماہ سابق رکن اسمبلی شیخ آصف نے کانگریس پارٹی سے استعفی دیا تھا اور کسی دوسری پارٹی میں شامل ہونے کا اشارہ دیا تھا۔حالانکہ انہوں نے کسی بھی دوسری پارٹی میں شامل ہونے کا فیصلہ عوام کی رائے پر چھوڑ دیا تھا اور اسے ایک بہترین حکمت عملی کہا جاسکتا ہے۔کانگریس سے استعفی دینے سے اب تک شیخ آصف نے مختلف میٹنگیں کی، عوام کی رائے لی، سرکردہ افراد سے مشورے بھی لئے اور اب 5 فروری یعنی کل بروز جمعہ ایک فیصلہ کن جلسہ عام میں اس بات کا اعلان کئے جانے کی توقع ہے کہ شیخ آصف کس پارٹی میں ہورہے ہیں۔اب تک کے سیاسی حالات اور شیخ آصف کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے متعدد لوگوں نے مختلف قیاس آرائیاں کی ہیں کہ شیخ آصف کس پارٹی میں شامل ہوسکتے ہیں یا انہیں کس پارٹی میں شامل ہونا چاہیے۔شیخ آصف کا کانگریس سے پرانا رشتہ ہے اسی پارٹی سے وہ کارپوریٹر بنے، اس کے بعد میئر بنے اور 2014 میں رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔2019 اسمبلی انتخابات میں کانگریس سے ہی امیدواری کی شکست سے دوچار ہوئے۔اس سے لحاظ سے دیکھا جائے تو کانگریس سے استعفی کی منطق سمجھ نہیں آتی۔لیکن اس معاملے کا دوسرا رخ کافی دلچسپ ہے۔قومی سطح پر کانگریس کی مایوس کن کارکردگی اور قیادت کا فقدان کانگریس کی مقبولیت میں مسلسل کمی کا باعث بنتا جارہا ہے۔ایسے وقت میں شیخ آصف کا دوسرے متبادل کی تلاش کرنا خوش آئند ثابت ہوسکتا ہے۔جس طرح موجودہ رکن اسمبلی مفتی اسمعیل قاسمی نے تین اسمبلی انتخابات میں تین مختلف سیاسی جماعتوں سے امیدواری کی اور حالیہ اسمبلی انتخابات میں مجلس اتحاد المسلمین سے امیدواری کرتے ہوئے تاریخی فتح درج کی۔جس کے بعد شخصیت کی بنیاد پر ووٹ دینے کی شہر کی روش تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔اگر ہم بات کریں آصف شیخ کی کہ وہ کس پارٹی میں شامل ہوں تو ایک عام رائے کے مطابق وہ راشٹر وادی کانگریس میں شامل ہوسکتے ہیں۔این سی پی مہاوکاس اگھاڑی حکومت میں شامل ایک مضبوط پارٹی ہے، شرد پوار کی قیادت میں این سی پی نے مہاوکاس اگھاڑی حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔اس کے علاوہ گذشتہ کچھ عرصے میں شیخ آصف کی این سی پی لیڈران اجیت پوار اور جینت پاٹل سے ملاقاتیں بھی اس بات کا اشارہ کرتی ہیں کہ شیخ آصف این سی پی میں شامل ہوسکتے ہیں۔ایک دوسرا متبادل ہے شیوسینا۔ حالانکہ شیوسینا کے بنیادی ہندوتوا نظریات کے پیش نظر شاید ایسا نہ ہوکہ شیخ آصف شیوسینا میں شامل ہوں۔عوام کا ایک بڑا طبقہ شاید اس فیصلے کی توقع نہ کرتا ہو لیکن کچھ لوگ اسے ایک بہتر متبادل کے طور پر دیکھتے ہیں۔2019 اسمبلی انتخابات کے بعد شیوسینا نے اپنی دیرینہ حلیف بی جے پی سے اتحاد ختم کرلیا۔سکیولر شبیہ رکھنے والی کانگریس اور این سی پی سے اتحاد کیا اور مہاراشٹر میں ایک مخلوط حکومت کی بنیاف رکھی۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ دیکھا گیا کہ شیوسینا کا کٹّر ہندوتوادی نظریہ آہستہ آہستہ سافٹ ہندوتوا میں تبدیل ہوگیا۔بطور وزیراعلی ادھو ٹھاکرے کی کارگردگی کی ہر طبقہ سے سراہنا کی۔ایسے میں شیوسینا کی شبیہ یکسر تبدیل ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ایک بات اور قابل غور ہے کہ مالیگاؤں سینٹرل اور مالیگاؤں آؤٹر میں ترقیاتی کاموں کا اکثر موازنہ کیا جاتا ہے۔مالیگاؤں آؤٹر کے رکن اسمبلی دادا بھوسے شیوسینا سے تعلق رکھتے ہیں، مہاوکاس اگھاڑی حکومت میں وزیر ہیں۔مالیگاؤں سینٹرل میں بھی وہ کافی مقبول ہیں۔اگر ان باتوں کو مدنظر رکھا جائے تو شیخ آصف کیلئے شیوسینا ایک بہتر متبادل ہوسکتا ہے۔عوام کا ایک بڑا طبقہ اس بات کی توقع کررہا ہے کہ شیخ آصف این سی پی میں شامل ہوں گے لیکن اگر شیخ آصف نے شیوسینا جوائن کی تو یہ خلاف توقع ایک دھماکے دار فیصلہ ہوگا اور مالیگاؤں آؤٹر کے رکن اسمبلی کے ساتھ مل کر شہر کی ترقی کی بنیاد ڈالی جاسکتی ہے۔اب تک شہر کی عوام کے پاس دو یا تین ہی متبادل ہوا کرتے ہیں اور ان میں ہی عوام کو اپنا نمائندہ منتخب کرنا ہوتا ہے لیکن اگر شیخ آصف شیوسینا میں شامل ہوتے ہیں تو شہر کو پارٹی کے لحاظ سے ایک نیا متبادل مل سکتا ہے۔بہر حال یہ فیصلہ تو کل سب کے سامنے آہی جائے گا۔ہوسکتا ہے کچھ قیاس آرائیاں درست ثابت ہوں یا کچھ ایسا بھی ہوسکتا ہے جس کی توقع کسی نے نہ کی ہو۔
Post A Comment:
0 comments: