تجارت کی اہمیت و افادیت ہر دور میں یکساں طور پر تسلیم کی گئی ہے۔جن قوموں نے تجارت کو اپنایا، ایمانداری اور تجارت کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے تجارت کی، ان قوموں نے باوقار مقام حاصل کیا اور دنیا پر حمکرانی کی۔جس قوم نے تجارت میں ترقی کی وہ معاشی بلکہ سیاسی طور پر غالب آگئی۔اسلامی تاریخ کا جائزہ لیں تو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ایک وقت ایسا تھا جب مسلمان تجارتی میدان میں دیگر قوموں کے مقابلے بلند وبرتر کہلائے جاتے تھے، کیونکہ انہوں نے دین اور دنیا دونوں کو مدنظر رکھا اور تجارت میں بھی اسلامی شعار، ایمانداری اور دعوت دین کو ملحوظ رکھا۔لیکن آہستہ آہستہ مسلمانوں کا تجارتی قد زوال پذیر ہوتا گیا کیونکہ مسلم تاجر تجارت کے اسلامی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر جھوٹ، فریب، مکاری اور دھوکا دہی کے مرتکب ہوتے گئے یا اپنی سہولت کے مطابق حصولِ رزق کے دیگر ذرائع اپنالئے۔اور شاید یہی مسلمانوں کی معاشی پستی اور زوال کا سبب بنا۔حالانکہ ہمارے پاس زندگی کے ہر شعبے کیلئے رہنما کر بھیجے گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’عَلَیْکُمْ بِالتِّجَارَۃِ فَاِنَّ فِیْھَا تِسْعَۃَ أَعْشَارِ الرِّزْقِ‘‘ یعنی، تم پر تجارت کو اختیار کرنا لازم ہے کیوں کہ رزق کے دس میں سے نو حصے فقط اس میں ہیں‘‘۔ (احیاء علوم الدین للغزالیؒ، دار ابن حزم للطباعۃ والنشر و التّوزیع، بیروت، ۲۰۰۵ء، صفحہ ۵۰۴)۔تو پھر معاشی وتجارتی منظر نامے پر ہماری زبوں حالی کےکیا اسباب ہیں؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ فرمان ہم نے فراموش کردیا؟ یا زیادہ نفع کی لالچ، نیت کی خرابی اور بے ایمانی نے ہمیں اس قابل نہیں چھوڑا کہ ہم تجارت کرسکیں؟ تجارت کی اہمیت وافادیت سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد اقوال موجود ہیں جو ہر دور میں ہماری رہنمائی کیلئے کافی ہیں۔مثلاًجب آپؐ سے یہ دریافت کیا گیا کہ کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے (أَیُّ الْکَسْبِ أَطْیَبُ)؟ تو آپ ؐ نے فرمایا، ’’عَمَلُ الرَّجُلِ بِیَدِہِ وَ کُلُّ بَیْعٍ مَبْرُوْرٍ‘‘ یعنی ’’آدمی کااپنے ہاتھ سے کوئی کام کرنااور ہر وہ تجارت جو پاکبازی کے ساتھ ہو‘‘ یعنی شریعت اسلامیہ کی عائد کردہ پابندیوں کو ملحوظ رکھ کر کی جائے۔ (مسند احمد، دارلکتب العلمیۃ، بیروت، 2008ء، بروایت رافع بن خدیجؓ)۔
مگر افسوس آج تجارت کے میدان میں ہم بالکل پچھڑے ہوئے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہم نے تجارت کے اسلامی اصولوں کو فراموش کردیا، نیت صاف نہیں رہی، ایمانداری سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں رہا۔ اپنی تجارت اور کاروبار چمکانے کیلئے جھوٹ اور مکاری کا سہارا لیا جانے لگا، ناقص مال کو بِنا اس کے نقص بتائے کسی گاہک کو فروخت کردینے کو ہوشیاری اور چالاکی سے تعبیر کیا جانے لگا۔ دیگر تاجروں اور دکانداروں کو نقصان پہنچانے اور ان کے گاہکوں کو لبھانے کیلئے قیمتوں میں پھیر بدل کیا جانے لگا۔ دھوکہ دہی، لوٹ کھسوٹ اپنے عروج پر ہے۔ مزدوروں اور اپنے ماتحتوں سے بھی ہمارا برتاؤ منصفانہ نہیں رہا۔ان کے حقوق تک کا ہمیں علم نہیں رہا اور حد تو یہ ہے کہ ہم اس تعلق سے حق بات سننے تک کے روادار نہیں رہے۔جھوٹ، چکنی چپڑی باتوں اور فریب دے کر دوسروں کو رام کرلینا کہاں کی ہوشیاری ہے؟ لوگوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھانا، اصل قیمت سے کم قیمت پر ان کے مال واسباب خریدنا اور اسے مہنگے دام میں فروخت کرنےکا چلن عام ہوچکا ہے اور لوگ بلاتردّد ایسے لوگوں کو ہوشیار اور بڑا کاروباری شخص کہتے نہیں تھکتے۔ شہر کی حد تک بات کریں تو ہم یہ ہوشیاری کس کے ساتھ کررہے ہیں؟ غور کریں۔ کیا ہم اپنے ہی لوگوں کے ساتھ مکر وفریب نہیں کررہے؟ کیا ہم اپنے ہی لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ نہیں اٹھا رہے؟ رہی بات غیروں سے کاروبار کرنے کی تو ہم کتنے ہوشیار ہیں اور ہماری کیا بساط ہے اس کا اندازہ ہر کسی کو ہے۔مقصدِ تحریر یہ نہیں کہ کسی مخصوص طبقہ پر تنقید کی جائے بلکہ بطور قوم ہم اس بات کا جائزہ تو لیں کہ آج ہم کسی ایک شعبہ میں بھی شہر، ملک یا عالمی سطح پر غالب کیوں نہیں ہیں؟ کیا ہم وہی قوم ہیں جس نے دنیا کے متعدد ملکوں میں تجارتی نظام متعارف کروایا؟آج حالات یہ ہیں کہ لوگ مسلمان تاجر سے مال خریدنے سے کتراتے ہیں، مشاہدہ میں یہ بات آئی کہ غیر مسلم تاجر کے مقابلے مسلمان تاجر زیادہ قیمت وصول کرتے ہیں۔گاہکوں کے ساتھ ہمارے تاجروں اور دکانداروں کا رویہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔یاد رکھیں کہ جب تاجر کے دل میں اسلامی تعلیمات اور اصول و ضوابط کے مطابق تجارت کرنے کی بجائے زیادہ منافع کمانے کا جذبہ کارفرما ہوجائے تو حلال اور حرام، جائز و ناجائز کا لحاظ باقی نہیں رہتا۔آج ہم تجارتی میدان میں کس مقام پر ہیں؟ کیا تجارت کے ذریعے ہم دیگر قوموں کیلئے ایک نمونہ پیش کررہے ہیں، بطور تاجر ہم اسلامی شعار اور تعلیمات کی تشہیر و تبلیغ کا ذریعہ بن رہے ہیں؟کہنے اور غور وفکر کرنے کی بہت ساری باتیں ہیں لیکن بنیادی طور پر اس بات پر توجہ دی جانی چاہیے کہ ہمیں اسلامی اصولوں کے مطابق تجارت کرنا ہے۔جو ان باتوں سے لاعلم ہیں انہیں خصوصی طور اسلامی اصول تجارت سے بہرہ ور کیا جانا چاہیے۔اب غیر ضروری مشاعروں اور دیگر غیر ضروری پروگرام پر روپے اور وقت کا ضیاع کرنے کی بجائے تعلیم، معیشت، تجارت اور اخلاقیات سے متعلق ورکشاپ کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔شہر کی ترقی اور کاروبار کے مواقع سے متعلق ہر کوئی بات کرتا ہے لیکن ہم اپنی ذمہ داریاں کب سمجھیں گے؟ کسی نہ کسی کو تو پہل کرنی ہوگی۔دوران تحریر تجارت کے موضوع پر ایک نامعلوم شخص کی عمدہ تحریر نظر سے گزری۔حسب ضرورت اس تحریر کا کچھ حصہ قارئین کے لئے رقم کررہا ہوں۔ ملاحضہ فرمائیں۔
(ہمیں حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن اور خوبصورتی سے متعلق متعدد باتیں بتائی جاتی ہیں مگر کوئی ان کی زندگی کے اس پہلو پر بات نہیں کرتا کہ اس حسین و جمیل پیغمبر نے اپنے ملک کو ایسا کون سا معاشی پروگرام دیا تھا کہ 7 سال کے طویل قحط کے دوران کوئی ایک بھی انسان بھوک نہیں مرا۔ہمیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت کا اتنا رعب ودبدبہ تھا کہ جنّات بھی ان کے ماتحت تھے۔لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ وہ بے پناہ سیاسی و معاشی بصیرت بھی رکھتے تھے۔انہوں نے فلسطین اور یمن کے درمیان تاریخی معاہدہ کیا۔ فلسطین جو ایک صنعتی ریاست تھی اور صنعتی لحاظ سے مستحکم تھی جبکہ یمن ایگریکلچرل ریاست تھی، حضرت سلیمان علیہ السلام صنعت اور زراعت کے درمیان دو طرفہ معاہدات کے نتیجے میں خطے کو جس خوشحالی کی طرف لے گئے آج کی جدید دنیا اس کی مثال لانے سے قاصر ہے۔مجھے سب واعظ یہ تو بتاتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زلفیں والیل اور روئے مبارک والضحی تھا مگر کسی واعظ نے اپنی تقریر کا عنوان یہ رکھنے کی زحمت نہیں کی کہ جس معاشرے میں لوگ غربت سے تنگ آکر لوٹ کھسوٹ اور قتل وغارت گری پر آمادہ تھے وہاں میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح ہمہ گیر تبدیلی لاتے ہوئے ایک ایسا منظم معاشی نظام متعارف کروایا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب زکوۃ دینے والے تو بہت ہوگئے مگر کوئی ایسا غریب نہ رہا کہ اسے زکوۃ دی جاسکے۔)
درج بالا تحریر ہمیں دعوت فکر دیتی ہے کہ ہمیں اپنے انبیاء کی حیات مبارکہ کے تمام پہلوؤں کو اپنی زندگی کا جزو لازم بنانا ہوگا اور اسی پر ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی کا انحصار ہے۔
غورطلب ہے کہ آج ہماری قوم کس حال میں ہے؟ انفرادی طور پر ترقی کرنے والے دسیوں مل جائیں گے لیکن بطور قوم اگر ہم حالات کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت ہم پر عیاں ہوگی کہ آج ہم کسی ایک شعبہ میں بھی غالب نہیں ہیں۔فلسطین، عراق، افغانستان اور برما کے مسلمانوں پر اسرائیلی و اسلام دشمن طاقتوں کے ظلم وستم کی مذمت کے طور پر ہم ان کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا۔کیا واقعی ایسا کرنے سے ہم ان اسلام دشمن طاقتوں کو زیر کرسکتے ہیں؟ ہمارے پاس ان مصنوعات کا متبادل تک موجود نہیں ہے۔ہم زندگی کے ہر شعبے میں حتی کہ روزمرہ کی ضروریات زندگی تک کیلئے ان پر منحصر ہیں۔ تو کم کیا کریں؟ کس طرح ایک منظم معاشی ڈھانچہ تشکیل پائے گا؟ بے شک بارہا ہمارے ذہنوں میں ایسے سوالات ابھرتے ہوں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا ممکن ہے۔قوموں پر عروج وزوال آتے رہتے ہیں۔بس ہمیں اپنے زوالکے اسباب تلاش کرنے ہیں، اپنی جڑوں کو مضبوط کرنا ہے، بنجر ہوتی زمین اور خزاں رسیدہ شجر کی آبیاری کرنی ہوگی اور ایک قوم بن کر سوچنا ہوگا۔
اس کے برعکس اگر آج ہم مسلمانوںکے معاشی حالات کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمیں خود غرضی کا ایسا مرض لاحق ہوا ہے کہ ہم ذاتی مفادات کیلئے اپنے ہی لوگوں کا نقصان کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔بسی اور بچت اسکیم کے نام پر غریبوں کے کروڑوں روپے لے کر فرار ہونے والے ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں، اس کے علاوہ پونزی اسکیم کے ذریعے قوم کے لوگوں کی زندگی بھر کی کمائی ہڑپ کرجانے والوں میں بھی ہمارے ہی کچھ لالچی اور خود غرض لوگ شامل ہیں۔
سرمایہ کاری کے نام پر ہم آج بھی ٹھگے جارہے ہیں۔ ہمارے اپنے ہی لوگ ہمیں برباد کرنے کے درپے ہیں۔ایک منظم سازش کے تحت ہماری معیشت کو تباہ وبرباد کیا جارہا ہے۔
حتی کہ سرمایہ کاری کے نام پر ہم مختلف پونزی اسکیم کا شکار ہورہے ہیں۔ ایسی جعلی سرمایہ کاری اسکیموں کے ذریعے متعدد مرتبہ دھوکہ کھانے کے بعد بھی ہمارے لوگ ان جیسی دوسری اسکیموں میں سرمایہ کرنے سے باز نہیں آتے جو سراسر لالچ پر مبنی ہیں۔ہمارا اپنا شہر، ہماری تجارت اور کاروبار بھی متعدد مرتبہ اس کی زد میں آیا لیکن اب بھی ہم میں بیداری کا فقدان یے۔شہر کی صنعت کا جائزہ لیں اور غور کریں کہ کیا وجہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ سال کے بیشتر حصہ میں صنعت پر بحرانی کیفیت طاری رہتی ہے اور یہ کوئی آج اور کل کی بات نہیں ہے بلکہ ہر سال کئی مرتبہ ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ صنعت بند کرنے کی نوبت آجاتی ہے۔ ذمہ داران مسائل کے حل کیلئے سرجوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، میٹنگوں کا انعقاد ہوتا ہے لیکن مسئلہ جیوں کا تیوں بنا ہوا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ شہر میں صنعت کی ترویج وترقی اور استحکام کیلئے کوششیں نہیں ہورہی ہیں، ہمارے اجداد سے ورثہ میں ملی ہوئی اس صنعت کی بقا کیلئے شہر کا ہر طبقہ سنجیدہ ہے۔ لیکن کیا صنعت سے متعلق مستقل حل موجود نہیں ہے؟ یا ہم عارضی حل پر مطمئن ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اس بھول بھلیّا سے نکل نہیں پارہے ہیں؟ جبکہ شہر کی معیشت کی بنیاد ہماری صنعت پر ہے اسے اس طرح ہلکے میں نہیں لیا جاسکتا۔اس بات پر بھی غور کریں اور اپنا محاسبہ کریں کہ کسی کمپنی یا صنعت کی کامیابی اور استحکام کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ کیا اس کی بنیادی وجہ اس کمپنی یا صنعت کی اپنے کام کاج اور کاروبار کے ساتھ ایمانداری نہیں ہے؟ کسی پروڈکٹ کو خریدتے وقت ہم کن باتوں کو مدنظر رکھتے ہیں؟ بے شک ہم اس پروڈکٹ کا میعار دیکھتے ہیں، اور ایک کامیاب کمپنی انہیں بنیادی باتوں پر عمل پیرا ہوکر صارفین کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے اور ہم جیسے صارفین ایسی کمپنی کو کامیاب بناتے ہیں۔
امید ہے کہ اس تناظر میں صنعت کو درپیش مسائل کے حل کیلئے کارپوریٹ لیول کے ماہرین کی خدمات لینے پر غور کیا گیا ہوگا، لیکن اگر ایسا نہیں کیا گیا ہے تو اب وقت ضائع نہیں کیا جانا چاہیے اور بیرون شہر کی چھوٹی موٹی کمپینوں کے پیٹرن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔جس طرح ان کمپنیوں میں Strategists کی خدمات لی جاتی ہیں اور صنعت کو استحکام بخشنے کیلئے ان کی رائے کے مطابق اقدامات کئے جاتے ہیں ہمیں بھی ایک کوشش کرکے دیکھنا چاہیے۔ شہر میں کسی طرح ایک بااثر اور مستحکم قیادت کے زیر نگرانی مختلف گروپس بناکر ہر گروپ کیلئے خصوصی صنعتی ماہرین و صلاح کاروں کا تقرر کیا جاسکتا ہے اور ان ماہرین کی رائے کے مطابق صنعت کو درپیش مسائل کے حل کیلئے اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ شہر میں اجتماعی طور پر اگر کسی پیشہ ور صنعتی صلاح کار کی خدمات حاصل کرلی جائیں تو ان شاء اللہ اس کے مثبت اثرات مرتب ہونے کے قوی امکانات ہیں۔اس کے علاوہ انفرادی واجتماعی طور پر ہمیں تجارت کے اسلامی اصولوں و قوانین کے پیمانہ پر خود احتسابی کرنے کی ضرورت ہے، ہم کسی بھی شعبہ میں کام کررہے ہوں یا تجارت کررہے ہوں اب ہمیں بطور قوم بیدار ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ اپنے شعبہ میں رہ کر پوری ایمانداری، دیانتداری اور قومیت کے جذبہ کے ساتھ اپنے کام کو انجام دینا ہوگا۔اگر ہم میں سے کسی ایک شخص نے بھی یہ بیج بودیا اور بطور ایک بیدار قوم ہم نے اس کی آبیاری کی تو اس بیج کو شجر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بس ایک کوشش کی ضرورت ہے، عہد کرلیں کہ ہم جس شعبہ میں بھی کام کررہے ہیں کسی بھی پیمانےپر تجارت سے وابستہ ہیں، ہم اسلامی تجارتی اصولوں سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ ہم تاجر، افسر یا ملازم ہونے سے پہلے مسلمان ہیں اور ہمارے پاس وہ مکمل ضابطہ حیات موجود ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں رہتی دنیا تک ہماری مکمل رہنمائی کیلئے کافی ہے۔
Post A Comment:
0 comments: