مودی کے خلاف ٹوئیٹ کرنے پر آج تک چینل سے بھی نکالے گئے، نوجوان صحافی نے حق بات کہنے سے پیچھے نہ ہٹنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کی جیلوں سے نہیں ڈرتا
تریپورہ میں گذشتہ ماہ ہوئے پر تشدد واقعات میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا۔حالانکہ تریپورہ پولیس اس سے انکار کررہی ہے۔اب تریپورہ پولیس نے سوشل میڈیا پر تریپورہ تشدد کی مخالفت کرتے ہوئے پولیس کو کٹہرے میں کھڑا کرنے والے سوشل اکٹیووسٹ، وکلاء حتی کہ صحافیوں کو بھی یو اے پی اے کے نوٹس بھیجنا شروع کردیا ہے۔اسی سلسلے میں نوجوان صحافی شیام میرا سنگھ کو بھی یو اے پی اے کے تحت نوٹس موصول ہوا ہے۔شیام میرا نے اس نوٹس کے بعد فیس بک پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج سے آج تک کے ساتھ صحافت کا میرا سفر ختم ہوا۔وزیراعظم مودی پر لکھے میرے دو ٹوئیٹس کے سبب مجھے آج تک سے نکال دیا گیا ہے۔مجھے اس بات کا دکھ نہیں ہے اسلئے آپ بھی آپ بھی دکھ نہ کریں۔انہوں نے کہا کہ جن دو ٹوئیٹس کا حوالہ دیتے ہوئے مجھے نکالا گیا ان میں سے ایک ہے۔ جو کہتے ہیں کہ پردھان منتری کی عزت کرو، انہیں سب سے پہلے مودی سے کہنا چاہیے کی وہ پردھان منتری کے عہدہ کی عزت کریں۔جبکہ دوسرا ٹوئیٹ ہے۔ یہاں ٹوئیٹر پر کچھ لکھتا ہوں تو کچھ لوگ میری کمپنی کو ٹیگ کرنے لگتے ہیں، کہتے ہیں اسے ہٹاؤ، اسے ہٹاتے کیوں نہیں؟ میں اگلا ٹوئیٹ مزید طاقت کے ساتھ کرتا ہوں۔ پر اسے لکھنے سے پیچھے نہیں ہٹوں گا کہ
Modi is a Shameless Prime Minister.
شیام میرا سنگھ نے کہا کہ یہ دو باتیں ہیں جن کی بنیاد پر مجھے نکالا گیا یا نکلوایا گیا۔ سات مہینے قبل جب میں نے آج تک جوائن کیا تب بھی مجھے اس بات کا علم تھا کہ مجھے کیا لکھنا ہے؟ کن لوگوں کیلئے بولنا ہے؟ تب سے برسراقتدار جماعت کے حامیوں کے ذریعے کمپنی کو ٹیگ کرکر کے لکھا جانے لگا تھا کہ اس آدمی کو آج تک سے نکالا جائے، کیونکہ یہ مودی کی مخالفت میں لکھتا ہے۔گذشتہ کچھ دنوں سے کمپنی پر سوشل میڈیا کے کے توسط سے ایک طبقے کے ذریعے دباؤ بنایا جارہا تھا۔بالآخر مذکورہ دو ٹوئیٹس کے بعد مجھے آج تک سے نکال دیا گیا۔مجھے کسی سے شکایت نہیں ہے۔ جو کچھ میں لکھا میں اس پر ڈٹا ہوں۔ بحیثیت ایک صحافی ہی نہیں بلکہ ایک شہری کے طور پر مجھ سے توقعات وابستہ تھیں کہ میں ایک ایسے بے شرم وزیراعظم کو بےشرم کہوں جو ایک کھلاڑی کے انگوٹھے کی چوٹ پر ٹوئیٹ کرسکتا ہے مگر بیرون ملک شہید ہوئے ایک ایماندار صحافی سے متعلق ایک لفظ بھی نہیں بولتے۔انہوں نے مزید کہا کہ مجھ سے بطور ایک شہری توقع تھی کہ میں اس وزیر اعظم کو بے شرم کہوں جس کی لفاظی اور تقریر بازی نے میرے ملک کے لاکھوں شہریوں کو کرونا میں مرنے کیلئے اکیلا چھوڑ دیا۔مجھ سے یہ توقع تھی کہ ایسے وزیراعظم اور اس کی حکومت کو بےشرم کہوں جس کی وجہ سے اس ملک کا ایک بڑا اقلیتی طبقہ ہر روز خوف میں جیتا ہے۔جسے ہر روز ڈر لگتا ہے کہ شام کو سبزی لینے جاؤں گا تو گھر لوٹ بھی پاؤں گا یا نہیں؟ یا داڑھی اور مسلمان ہونے کی وجہ سے مارا جاؤں گا؟ مجھ سے یہ توقع تھی کہ میں اس وزیراعظم کو بےشرم کہوں جو لداخ میں شہید ہوئے 21 فوجیوں کی شہادت کی خبر کو چھپائے، اور اپنی کرسی بچانے کیلئے یہ کہہ کر دشمن ملک کو کلین چٹ دے دے کہ سرحد میں کوئی داخل نہیں ہوا، نا کوئی تنازعہ ہوا۔ملک کو دیگر لوگوں سے اس بات کا پتہ چلے کہ ہمارے فوجی جوانوں کا قتل کردیا گیا ہے۔کسی بھی پارٹی، طلباء، مزدور، اساتذہ، دلتوں کی تنظیم احتجاج کرنے کیلئے سڑکوں پر آئے اور پولیس لاٹھیوں سے ان کی کمر توڑ دے، تب مجھ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ پولیس کے اس ظلم کے پس پشت بیٹھے وزیراعظم سے میں کہوں کہ وہ بےشرم ہے۔ہزاروں کسان دہلی کی سرحدوں پر آٹھ مہینے تک سڑکوں پر پڑے رہیں، ان میں سے سیکڑوں بزرگ وہیں دم توڑ دیں اور وزیراعظم کہیں کہ میں صرف ایک کال کی دوری پر ہوں، تب ایک شہری کی حیثیت سے مجھ سے امید کی جاتی ہے کہ میں اس وزیراعظم کو بےشرم کہوں۔انہوں نے کہا کہ ایسی ہزاروں باتیں اور سیکڑوں واقعات ہیں جن پر اس ملک کے وزیراعظم کو نہ صرف بے شرم بلکہ دھوکے باز، چور اور معصوم شہریوں کے حقوق کو کچلنے والا بزدل ڈکٹیٹر کہنا چاہیے۔اسلئے مجھے اپنی کہی ہوئی بات پر کوئی دکھ نہیں ہے۔اس بات کا احساس مجھے نوکری کے پہلے دن سے تھا کہ دیر سویر مجھ سے استعفی مانگا جائے گا یا وزیراعظم کے دفتر کی ایک کال پر نکال دیا جاؤں گا۔ہر ٹوئیٹ کرتے ہوئے ذہن میں یہ بات آتی تھی کہ اس کے بعد کہیں ایف آئی آر نا درج ہوجائے۔کہیں نوٹس نا بھیج دیا جائے، کیسے نمٹوں گا اس سب سے؟ یہ خطرہ ذہن میں آنے کے بعد بھی لکھ دیتا تھا۔
شیام میرا سنگھ نے کہا کہ میں نے وہی باتیں کہی جس کی توقع مجھ سے ایک صحافی اور شہری کے طور پر کی جاتی۔جس کی امید صرف مجھ سے نہیں بلکہ ایک درزی سے بھی کی جاتی ہے کہ برسوں میں حاصل کی گئی ملک کی آزادی لٹنے پر تم بولو گے۔یہ توقع مجھ سے ہی نہیں کی جاتی بلکہ پرائمری میں پڑھانے والے ٹیچر سے بھی کی جاتی ہے، یونیورسٹی کے پروفیسر، مکان بنانے والے مستری، سڑک پر ٹیمپو چلانے والے ڈرائیور، طالب علموں اور کمپنی میں ملازمت کرنے والے ملازموں سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ ہر روز ہوری ماب لنچنگ پر وہ بولیں گے۔ میں نے اپنا فرض ادا کیا، جہاں رہا ہر اس جگہ کوشش کی کہ عوام کی بہتری کیلئے کچھ لکھ سکوں۔
شیام میرا سنگھ نے کہا کہ چونکہ عمر اور تجربہ میں بچہ ہوں، کرئیر کے ابتدائی دور میں ہوں، مستقبل کا مجھے پتہ نہیں ہے، ابتداء میں ہی میری تحریر کے بدلے میرا روزگار چھین لیا گیا تو اندر سے کبھی کبھی ایموشنل ہوجاتا ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی چھوٹی سی چڑیا کسی جنگل میں آئی اور اڑنے سے پہلے ہی اس کے پر کتر دیئے گئے ہوں۔لیکن یہ بھی ضروری ہے اس ننھی سے چڑیا کے پاس یہ متبادل تھا کہ وہ کچھ دن بنا اڑے ہی اپنے گھونسلے میں رہے، چپ بیٹھے، کہیں بھی اڑنے نا جائے۔ لیکن اس چڑیا نے اپنے پنکھ کتر جانا قبول کیا، لیکن یہ نہیں کہ اڑنا چھوڑ دیگی۔ زمین پر پڑے اس کے پنکھ اس بات کے ثبوت کے طور پر درج کئے جائیں گے کہ کوئی ایسی حکومت تھی جس میں پرندوں کے پنکھ کتر لئے جاتے تھے۔اگر وہ چڑیا اڑنا بند کرکے گھونسلے میں ہی بیٹھی رہتی تو ان کترے ہوئے پنکھوں کا اندراج نہیں ہوتا اور پنکھ کترنے والی حکومت کا ننگا چہرہ کبھی نظر نہیں آتا۔ایسی ننھی چڑیوں کے کترے ہوئے پنکھ اس جنگل پر راج کرنے والے راجہ کا اصلی چہرہ درج کرنے کیلئے کاغذات ہیں۔اسلئے مجھے دکھ نہیں، افسوس نہیں، اطمنان ضرور ہے کہ میں اپنے حصے کا فرض اور ذمہ داری ادا کرکے جارہا ہوں۔ باقی اپنے ہر اچھے برے میں ان مصرعوں سے ہمت ملتی رہتی ہے کہ:
ہزار برق گرے، لاکھ آندھیاں اٹّھے
وہ پھول کھل کے رہیں گے، جو کھلنے والے ہیں


Axact

TRV

The Name you Know the News you Need

Post A Comment:

0 comments: