ایودھیا ضلع کے کھانداسہ پولیس اسٹیشن میں تعینات پولیس اہلکار محمد فرمان نے داڑھی رکھنے کے حق سے متعلق الہ آباد ہائی کورٹ میں دو پٹیشن دائر کی تھی حالانکہ ان کی دونوں پٹیشنز خارج کردی گئیں۔ہائی کورٹ کی لکھنیو بینچ نے کہا کہ مذہبی آزادی کے حق کے باوجود پولیس محکمہ میں ملازمت کے دوران داڑھی رکھنے کا آئینی حق نہیں ہے۔کانسٹیبل محمد فرمان نے مذکورہ دونوں پٹیشنز ملازمت سے اپنی معطلی کے خلاف دائر کی تھی۔دراصل اترپردیش پولیس کے ڈی جی پی کے ذریعے ایک سرکیولر جاری کرکے پولیس فورس میں رہتے ہوئے داڑھی رکھنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ سرکیولر جاری کئے جانے کے بعد بھی پولیس کانسٹیبل محمد فرمان نے داڑھی رکھی ہوئی تھی۔جس کے بعد حکم پر عمل نہ کرنے کے سبب ایودھیا پولیس نے انہیں معطل کردیا۔
محکمہ کی اس کارروائی کے خلاف محمد فرمان نے پٹیشن دائر کی۔پہلی پٹیشن میں انہوں نے ڈی جی پی کے ذریعے اپنی معطلی کے حکم اور دوسفی پٹیشن میں محکمہ کی فرد جرم کو چیلنج کیا تھا۔کانسٹیبل فرمان نے دلیل دی کہ آئین ہند ہر شہری کو مذہبی آزادی دیتا ہے اسلئے اس نے اسلامی تعلیمات کے مطابق داڑھی رکھی ہے۔جسٹس راجیش سنگھ چوہان کی یک رکنی بینچ نے محمد فرمان کی دونوں پٹیشنز کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ 26 اکتوبر 2020 کا سرکیولر پولیس محکمہ میں نظم ونسق بنائے رکھنے کا ایک ایگزیکٹیو حکم ہے، جس کے مطابق پولیس محکمہ میں ملازمت کے دوران داڑھی رکھنے کا آئینی حق نہیں ہے۔ جسٹس چوہان نے پٹیشن دائر کرنے والے کانسٹیبل محمد فرمان کے خلاف دائر فردجرم اور معطلی کے کاغذات پر دستخط کرنے سے بھی انکار کردیا۔اس سے قبل بھی اس طرح کے معاملات میں عدالتوں نے پولیس یا دیگر سکیورٹی فورسز میں کام کرنے والے لوگوں کے داڑھی رکھنے کے خلاف فیصلے دیئے ہیں۔باغپت میں تعینات سب انسپکٹر انتصار علی کو کئی مرتبہ داڑھی منڈوانے یا یا داڑھی رکھنے سے متعلق ضروری اجازت لینے کیلئے کہا گیا۔جس کیلئے انہوں نے اجازت نہیں لی اور داڑھی رکھی۔انہیں اس معاملے میں وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرنے کے ساتھ معطل کردیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ۔۔۔نارائن رانے کو مہاڈ سول کورٹ سے ضمانت
اسی طرح کے ایک معاملے میں 2008 میں ہندوستانی فضائیہ میں ائیر مین کے عہدے پر تعینات انصاری آفتاب احمد کی خدمات کو ائیر فورس کے ذریعے ختم کردیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ تمام مسلمان داڑھی نہیں رکھتے، اسلام میں داڑھی رکھنا اختیاری ہے۔اسلئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مذہبِ اسلام اس کے ماننے والوں کو بال یا داڑھی کاٹنے سے منع کرتا ہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہے ٹی ایس ٹھاکر کی زیر قیادت بینچ نے بھی اس معاملے شنوائی کرتے ہوئے آفتاب احمد کی برخاستگی کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا، "ہندوستان بلاشبہ ایک سیکولر ملک ہے جس میں ہر مذہب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے، لیکن یہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جو قوت قوم کے دفاع کے لیے کھڑی کی گئی ہے، وہ نظم و ضبط کو برقرار رکھتی ہے۔"اس بینچ میں شامل جسٹس چندر چوڑ اور جسٹس ایل ناگیشور راؤ نے کہا تھا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ اسلامی تعلیمات میں بال کاٹنے یا چہرہ شیو کرنے پر پابندی لگائی گئی ہو۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 کے مطابق کسی بھی شخص کو اپنے مذہب کے مطابق اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی آزادی ہے۔ اس آزادی کے تحت اسے داڑھی رکھنے یا کوئی اور مذہبی شناخت اختیار کرنے کی آزادی ہے۔ لیکن آرٹیکل 25 کے مطابق پولیس ڈریس کوڈ میں صرف سکھوں کو داڑھی رکھنے کی اجازت ہے، اگر ان کے علاوہ کوئی اور داڑھی رکھنا چاہتا ہے تو اسے محکمہ پولیس سے اجازت لینا ہوگی۔پروفیسر فیضان مصطفی ایک سینئر آئینی قانون دان ہیں جو اس وقت نلسار یونیورسٹی آف لاء حیدرآباد کے وائس چانسلر ہیں۔ انہوں نے اپنے آفیشل یوٹیوب چینل پر ایک ویڈیو میں اس مسئلے کے بارے میں بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر عدالت صرف اتنا کہتی تو بات ختم ہوجاتی کہ اگر آپ کو سکیورٹی فورسیز یا پولیس محکمہ میں ملازمت کرنی ہے تو آپ کو وہاں کے قوانین پر عمل کرنا ہوگا۔لیکن عدالت کا یہ طے کرنا غلط ہے کہ کسی مسلمان کیلئے داڑھی رکھنا ضروری ہے یا نہیں۔فیضان مصطفی کہتے ہیں کہ تمام مذاہب کے اندر آپسی نظریات میں اختلاف ہوتا ہے، کسی مسلمان کیلئے داڑھی تکھنا ضروری ہوسکتا ہے۔کیونکہ قرآن کے بعد مسلمان احادیث کو سب سے زیادہ مانتے ہیں جس کے مطابق داڑھی رکھنا ضروری ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ مسلمانوں کی بنیادی مذہبی ضروریات کا فیصلہ علماء اسلام کریں گے۔کسی ایک مسلمان کے طرز عمل یا سروے سے یہ طے نہیں کیا جاسکتا۔فیضان مصطفی نے مزید کہا کہ کوئی چیز اگر قرآن میں نہیں تو یہ کہہ دینا کہ وہ مسلمانوں کیلئے ضروری نہیں ہے یہ غلط ہے۔مصطفیٰ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر آرٹیکل 25 مذہبی آزادی دیتا ہے تو اس کی دوسری شق میں ریاستوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مذہبی آزادی کو کنٹرول کرسکتے ہیں، لیکن کسی کی مذہبی آزادی کو یہ کہہ کر چھیننا غلط ہے کہ اس طرح کا طرز عمل اس کے بنیادی مذہبی اصولوں پر مبنی ہے۔ کسی مذہب کے بنیادی مذہبی اصول اس مذہب کے علماء کو طے کرنے دیں۔
Post A Comment:
0 comments: